جو حق کی رَہ پر چلتے ہیں کانٹوں کو بچھایا جاتا ہے
ہر ایک قدم پر ان کو تو پھر خوب ستایا جاتا ہے
باطن کی عداوت کتنی ہے ظاہر کی سجاوٹ تو دیکھو
اک جام محبّت کا دے کر پھر زہر پلایا جاتا ہے
کرتے ہیں نیکی جس سے ہم چلتا ہے چالیں وہ ہر دم
دل پر میرے اک کوہِ سِتم چُپکے سے گرایا جاتا ہے
کُچھ کم تھے کیا دُکھ اپنوں کے پھر ساتھ ملے وہ غیروں کے
اک پاش جگر کے ٹکڑوں پر یوں جشن منایا جاتا ہے
یہ کھیل تباہی کا یارو وہ کھیل رہے ہیں مستی میں
فرعون بنے ہیں کچھ ایسے انجام بھُلایا جاتا ہے
مظلوم ہے بے بس دنیا میں تم بھول رہے ہو عُقبیٰ کو
ظالم کو قیامت کے دن تو دوزخ میں جلایا جاتا ہے
پھر کون گِرائے زیرکؔ کو عطار ہیں مرشد اس کے تو
صحبت میں ان کی الفت کا اک جام پلایا جاتا ہے

0
29