یہ سب کی تیرہ بختی تھی جو تُم سرکار بن بیٹھے
جو سارے چور ڈاکو تھے وہ پہرے دار بن بیٹھے
قیامت ہے کہ جن کو فرقِ بَّر اور بِرّ نہیں آتا
وہ اب اپنے مریدوں میں شہہِ ابرار بن بیٹھے
مرا مدّمقابل مجھ پہ سبقت لے گیا آخر
کہ میرے ہم نشیں اس کے رفیقِ کار بن بیٹھے
وہ جن کا دامنِ تیرہ ترستا تھا اجالوں کو
طلسمات فسوں سے صاحبِ انوار بن بیٹھے
مرے نقشِ تخیّل میں ابھی نقشے پرانے ہیں
وہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اوتار بن بیٹھے
کبھی امید اپنے آپ سے باہر نکل دیکھو
جو صدیوں کے گداگر تھے دُرِ شہوار بن بیٹھے

62