یہ سب کی تیرہ بختی تھی جو تُم سرکار بن بیٹھے |
جو سارے چور ڈاکو تھے وہ پہرے دار بن بیٹھے |
قیامت ہے کہ جن کو فرقِ بَّر اور بِرّ نہیں آتا |
وہ اب اپنے مریدوں میں شہہِ ابرار بن بیٹھے |
مرا مدّمقابل مجھ پہ سبقت لے گیا آخر |
کہ میرے ہم نشیں اس کے رفیقِ کار بن بیٹھے |
وہ جن کا دامنِ تیرہ ترستا تھا اجالوں کو |
طلسمات فسوں سے صاحبِ انوار بن بیٹھے |
مرے نقشِ تخیّل میں ابھی نقشے پرانے ہیں |
وہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اوتار بن بیٹھے |
کبھی امید اپنے آپ سے باہر نکل دیکھو |
جو صدیوں کے گداگر تھے دُرِ شہوار بن بیٹھے |
معلومات