عذاب جس نے مری زندگی بنائی بھی تھی
اسی سے رسم و رہِ دوستی نبھائی بھی تھی
یہ حشر ہے تو حساب و کتاب ہونا ہی تھا
تمہیں نے دل پہ قیامت ہمارے ڈھائی بھی تھی
فریب گر دیا ہوتا بجا تھا شکوہ گلہ
برائی آپ سے اپنی کوئی چھپائی بھی تھی
مگر میں اپنی انا پر جو مر مٹا یونہی کب
تمام عمر کی میرے یہی کمائی بھی تھی
مگر جو سچ تھا سرِ دار سچ ہی کہتا رہا
مرے لہو میں یہی اک بڑی برائی بھی تھی
حبیب راہِِ وفا کوئی سیجِ گل تو نہیں
یہ بات ہم نے تمہیں بارہا بتائی بھی تھی

0
25