نہ کرنا غور میرے خط پہ، بس مجھ کو سزا دینا |
مرے جرمِ محبت پر مری گردن اڑا دینا |
مرا ہر نقش چاہو ذہن سے اپنے مٹا دینا |
تمھارے پاس جتنے خط ہیں میرے سب جلا دینا |
اگر بولے زیادہ تو گلا ہلکا دبا دینا |
مرے نامہرباں کو بھی نہ آیا فیصلہ دینا |
مجھے ہے برملا دعویٰ فنا فی العشق ہونے کا |
بڑا کافر ہوں میں منصور، سولی پر چڑھا دینا |
نہ کرنا دفن مجھ کو، میں بڑا مجرم ہوں، ڈرتا ہوں |
جلا دینا مجھے اور راکھ اڑا دینا، بہا دینا |
شبِ وصل آپ کے آگے جو منہ کھولیں تو گھونگٹ سے |
نکال اک لِٹ، ہمیں زہریلی ناگن سے ڈسا دینا |
جوانی کا سخن کچھ ضعف میں اب یاد آتا ہے |
گئے رات اٹھ کے الٹے پاؤں سے خامہ گھما دینا |
نہ ہو معلوم کیا لکھنا ہے خط میں کیا نہیں لکھنا |
رہیں لکھنے نہ لکھنے میں انہیں خط ہم نے کیا دینا |
لگے ہو حور پیچھے شیخ! بھاگم بھاگ، کیا کہنے |
اسی چکّر میں جوتے، ایڑیاں، ماتھا گِھسا دینا |
لگا ہے باعثِ دردِ دل اپنا ہاتھ سینے سے |
نہ چُھوٹا نزع میں، کچھ دیر میں کوئی چُھڑا دینا |
ملا ہے دیر میں دل تفتہ کو حکمِ سزائے موت |
سنو! جلّاد کو گھر سے ذرا جلدی بلا دینا |
تمھارا وعظ سننے آئے ہیں اے شیخ! بادہ نوش |
ہمارے منہ سے آئی بُو تو مسجد سے اٹھا دینا |
ہمیں تاریکیوں میں کھوجتے رہنے کی عادت ہے |
خوشی سے شمع خلوت میں جلی رکھنا، بجھا دینا |
طبیعت ہو اگر مائل کرم پر، شرم مت کرنا |
زباں سے کچھ نہ کہنا، حال اشاروں سے بتا دینا |
خدا خوبانِ بد خُو سے بچائے ورنہ توبہ ہے |
بھلے چنگے کو اک دو پل میں دیوانہ بنا دینا |
جنابِ خضرؑ کو، الیاسؑ کو، عیسیٰؑ کو دیکھا ہے |
خدایا! توبہ توبہ مت کسی کو بھی بقا دینا |
بنا ڈالیں گے مٹی کو خدا، لوگوں کے کیا کہنے |
نکلتے روح کے مٹی کو مٹی میں ملا دینا |
سمائے گی نہ میری فکر طول و عرض میں تیرے |
الہٰی! وسعتِ کون و مکاں تھوڑی بڑھا دینا |
فرشتہ آسماں سے کیا اہم پیغام لایا ہے |
ابھی مصروف ہوں میں، بالکونی میں بٹھا دینا |
سوالِ بوسہ پر اس کا جواب آتا ”منہ دیکھو“ |
یہ اک طُرفہ تماشا ہے، زباں لمبی چلا دینا |
جوابِ ”لن ترانی“ پر خدا کے سخت حیراں ہوں |
بجائے پردہ، خود کو جیسے پردے سے ہٹا دینا |
بہت اب کر لیا، چلتا ہوں، میں نے انتظار اس کا |
وہ آئے، عہد نامہ اس کے ہاتھوں میں تھما دینا |
جفا کے بعد پچھتانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا |
اچانک راہ چلتے مل گئے تو سر جھکا دینا |
کسی احسان کی تیرے ضرورت ہی نہیں ہم کو |
اگر کرنا تو یہ کرنا کہ پہلے ہی جتا دینا |
وہاں تو دل کسی مجبور کا گر ہاتھ لگ جائے |
تو اس بد خُو کی خُو ہے، دانت رکھنا اور چبا دینا |
کوئی گر دیکھ لے خونِ کفِ قاتل کا داغ، اس پر |
یکایک بات الٹ کر کہہ اسے رنگِ حنا دینا |
پریشاں کیوں نہ ہوں میں اُس کی اِس زلفِ پریشاں پر |
قریب آنے لگوں میں جب بھی، شانے پر اَڑا دینا |
خیال آتا ہے اس کے کان کی مُرکی کے ہلنے کا |
جو کافی ہو گیا اک عمر کا ہم کو نچا دینا |
اگر دشتِ جنوں سے قیس دیوانہ کبھی لوٹے |
شب آرامی کی خاطر اس کو میرا بسترا دینا |
جہانِ قابلِ رحم اور ہم بے رحم، پتھر دل |
غمِ تنہائی تنہاؔ، کوئی غم صبر آزما دینا |
معلومات