میں خواہشوں کے قفس کا قیدی تم الجھنیں بھی شمار کرنا |
حسین چہروں کا میں پجاری یہ لغزشیں بھی شمار کرنا |
نبھاہ کرتے یہ عمر گذری مگر نبھانا بہت کٹھن تھا |
کبھی جو تشخیص کرنے بیٹھو تو کاوشیں بھی شمار کرنا |
یہاں مقدر کی تھی اسیری بہت دکھایا ہے دل تمہارا |
مگر جو حصے میں آئیں میرے اذیتیں بھی شمار کرنا |
بہت دفع یہ ہوا صدائیں بھٹک گئیں یونہی راستے میں |
جو مسترد تم نے کیں ہمیشہ گذارشیں بھی شمار کرنا |
عجیب دشمن ملے یہاں پر سکون دن کو نہ چین شب بھر |
مگر جو اپنوں نے کیں ہمیشہ وہ سازشیں بھی شمار کرنا |
غلام ابنِ غلام شاہدؔ نہ کر سکا کچھ بھی زندگی میں |
مٹا گئیں جو نصیب اس کا وہ بارشیں بھی شمار کرنا |
معلومات