دل میں عنوان مصیبت کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی کرب کی صورت کے سوا کچھ بھی نہیں
طمع دیدار کی دل میں ہو نظر میں ہو ادب
وصل کی رات عبادت کے سوا کچھ بھی نہیں
جو تھے مونس وہی دلبر وہی اغیار ہوئے
ہائے انسان میں جدت کے سوا کچھ بھی نہیں
جان تو جائے گی پھر شمع کی قربت میں سدا
نور جلتی ہوئی ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں
لاکھ سمجھائے کوئی لاکھ دلاسے بھی ملیں
حجر بس روز قیامت کے سوا کچھ بھی نہیں
آیتیں یاد ہیں پر دل کو کوئی چین نہیں
دل میں رکھا جو عداوت کے سوا کچھ بھی نہیں
حسنِ جاناں کا مرے سامنے جو ذکر ہوا
میں پُکارا کہ یہ قدرت کے سوا کچھ بھی نہیں
دلِ حیدر جو قفس گیر ہے ایسے نہ ہوا
عشق بیجا کی یہ فطرت کے سوا کچھ بھی نہیں

0
56