اپنی تشکیل کیوں نہیں کرتے
خود کو تبدیل کیوں نہیں کرتے
کتنے سالوں سے منتظر ہوں میں
خط وہ ترسیل کیوں نہیں کرتے
عشق میں عقل کی نہیں سنتے
دل کی تعمیل کیوں نہیں کرتے
تم بھی آدھے ہو میں بھی آدھا ہوں
خود کی تکمیل کیوں نہیں کرتے
پیار کو کب تلک چھپاؤ گے
اس کی تمثیل کیوں نہیں کرتے
تم کو تنہائی مار ڈالے گی
مجھ میں تحلیل کیوں نہیں کرتے
لوگ الزام دھر رہے تم پر
میری تذلیل کیوں نہیں کرتے
خواب جو ہم نے مل کے دیکھے تھا
ان کی تاویل کیوں نہیں کرتے

56