آواز دے رہا ہوں اجالوں کو دیر سے |
گزرے ہوئے مہینوں کو سالوں کو دیر سے |
تم کون ہو کہاں سے ہو کیا ذات پات ہے |
فرسودہ و بے کار سوالوں کو دیر سے |
کوئی نہیں جو تیری صدائوں کو سُن سکے |
سُب جانتے ہیں تیرے خیالوں کو دیر سے |
بیگانہ کر دیا مجھے جس کے جمال نے |
اس کے حسین عارضوں خالوں کو دیر سے |
روٹی کے چند ٹکڑے دئے کیا فقیر کو |
اب گِن رہا ہے اسکے نوالوں کو دیر سے |
مَیں نے چھُؤا تو آگ بگولا ہوئے حضور |
اب چُومتا ہے پوتا بھی گالوں کو دیر سے |
کیسے کٹی جوانی کہاں رات دن گئے |
اب ڈھونڈ تا ہوں بیتے زمانوں کو دیر سے |
ناراض ہیں عوام کہ فتویٰ بھی دے دیا |
اب ڈھونڈتا ہے سارے حوالوں کو دیر سے |
امید کیا مثال مرے جانِ جاں کی ہو |
ڈھونڈا کئے ہوں کتنی مثالوں کو دیر سے |
معلومات