سب کو کب ہانکا جاتا ہے ، صاحب ایک ہی سانٹے سے
تبدیلی ہوتی ہے ان میں ، ڈھونڈیں لوگ جو چھانٹے سے
کچھ اصلاح کی نیّت سے کہہ دو تو غصّہ کر جائیں
سنتے کب ہیں پیار سے وہ ، ناراض بھی ہوں وہ ڈانٹے سے
ان کو بولو کر کے عمل ، تعلیم پہ خود بھی دکھلائیں
دوجا گال کریں نا آگے ، ڈر گئے ایک پہ چانٹے سے
رختِ سفر باندھا ہے ، نکلے گھر سے اور اب ڈرتے ہو
پھول کی چاہت میں نکلے ہو ، ڈرنا کیا پھر کانٹے سے
حیراں ہو کر ہم نے دیکھا ، خود ہی ریڑھی والے نے
لانے کو شیزان تھا بھیجا ، تنگ آئے تھے فانٹے سے
برتن ٹوٹ کے جُڑ جائے پر ، جوڑ چھپے نظروں سے کب
ایک دفعہ ٹوٹی جو یاری ، کب جڑ پائے گانٹھے سے
طارق ؔ شوق سے پھیلاؤ دنیا میں جو کچھ سیکھا ہے
علم کی دولت ایسی ہے جو ختم نہ ہو گی بانٹے سے

0
5