آج مصروفِ ثنائے شہِ ابرار ہوں میں |
یعنی در بحرِ عطاِ ربِ غفار ہوں میں |
آج چمکے ہیں ستارے مرے ہر سو دیکھو |
کیونکہ گویائے درِ احمدِ مختار ہوں میں |
آج دیکھی ہے فرشتوں کی روانی میں نے |
آج تو عالمِ اسرار کے آثار ہوں میں |
آج یاسینِ کے پانی سے وضو ہے میرا |
آج تطہیر بیاں کرنے کو تیار ہوں میں |
آج احمد کی ثنا خوانی کو اٹھا ہے قلم |
آج سنسار کی تقدیر پہ مختار ہوں میں |
آج چاہوں تو سبھی سنگ کریں مجھ سے کلام |
کیوں نہ ہو ایسا غلامِ شہِ ابرار ہوں میں |
آج میثم کی طرح وجد عیاں ہے مجھ پر |
آج سلمانِ محمد ہی کی گفتار ہوں میں |
میں نے جب عالمِ ارواح میں جا کر دیکھا |
خاک ہوں خاک درِ سیدِ احرار ہوں میں |
ہوئی معراج مجھے ازنِ ثنا جب پایا |
عرشِ اولیٰ پہ کہے جائیں وہ اشعار ہوں میں |
آج پھر دشمنِ احمد کے لئے میرا وجود |
باعثِ مرگ ہے ان کے لئے تلوار ہوں میں |
آج الفاظ عطا حضرتِ سرور نے کئے |
جب ہی کہتا ہے قلم عالمِ اسرار ہوں میں |
آج اللہ نے مرے قلب کو بخشا ہے قرار |
آج پھر ثور کے دیدار کی تکرار ہوں میں |
آج کر سکتا ہوں معراجِ محمد کو عیاں |
آج ہمراز شہِ حیدرِ کرار ہوں میں |
آج ہے محوِ طوافِ درِ زہرا حیدر |
آج گمنام نہیں ورد جہاںدار ہوں میں |
معلومات