بھولے بھالے وہ بچے کہاں سو گئے
تھے انوکھے وہ دن اب کہاں کھو گۓ
فکرِ گلشن نہ تھی آشنائی نہ تھی
خواہ مخواہ یار اب ہم جواں ہو گۓ
باغ میں تتلیوں کو پریشاں کریں
پھول شبنم کلی کو ہراساں کریں
موسمِ بوندا باندی میں نالاں کریں
کشتی کاغذ کی پھر نذرِ باراں کریں
بن کے شاہین پرواز کو لے اڑیں
گلسِتاں کے پرندوں کو حیراں کریں
اپنے بھولے اداؤں سے بن کے کرن
گوشے گوشے چمن کو درخشاں کریں
ہم خزاں کے بھی رُت میں بہاراں کریں
پھر چراغِ چمن کو فروزاں کریں
اور تختِ سلیماں کو کر آشنا
دوشِ بادِ صبا پر سواراں کریں
وہ کھلونے وہ مٹی کے شاہی محل
جس کی خاطر سبھی سے جھگڑتے رہے
چھوٹی چھوٹی سی باتوں پہ برہم ہوۓ
بات باتوں میں اک دوجے لڑتے رہے
شام ہوتے ہی کمبل میں ہم جا گھُسیں
ننھے معصوم پیروں سے سیکل کریں
بانگ مرغے کے ہونے سے کچھ پیشتر
اپنے بستر میں ہم آنکھ کھولے ملیں
جیسے تنکے ہو سیلاب کے بار میں
اس طرح ہم دیوانے سے گلیاں پھرے
جس طرح آسماں میں ستارے بہت
اس طرح میرے بچپن تھے پیارے بہت
کتنا معصوم تھا کتنا نایاب تھا
میں زمانے کی نظروں میں مہتاب تھا
گر کھلونا کوئی چھین لیتا مرا
میری آنکھوں میں بس آب ہی آب تھا
وہ بچے جو تھے نا آشنائے خروش
آج چشمِ جہاں میں وہ تلوار ہیں
کل تلک تھے جو اپنے وہی آج کل
ایسے دیکھیں ہیں جیسے کہ اغیار ہیں
وہ پرانی حویلی کے دو چار گھر
وہ پرانی سی بستی کے مانوس در
شام کی دل لگی صبح کی خوش دلی
اب ستاتی ہے مجھ کو وہ شام و سحر
اب کہاں سے میں لاؤں وہ شام و سحر
وہ لڑکپن کے دن وہ شرارت کا گڑھ
ڈھونڈھ لاتا میں وہ کم سنی کی جہاں
میرے بس میں یہ ہوتا اے کاش و اگر
دن جوانی کے جب سے یہ چڑھنے لگے
میرے نالوں کے خواہاں بھی بڑھنے لگے
دھڑکنوں کی تھکن میں اضافہ ہوا
درد سینے میں پھر روز کڑھنے لگے
دم نکلنے لگا جان جانے لگی
زندگی پھر بے ترتیب ہونے لگی
زخم ہاتھوں سے ہم اپنے سینے لگے
زندگی موت تھی پھر بھی جینے لگے
موجِ ہستی حسیں وہ کہاں کھو گئیں
میرے بچپن کی شامیں جواں ہو گئیں
ڈھونڈھتا ہوں جنہیں میں تلے آسماں
وہ ستاروں میں جاکر نِہاں ہو گئیں
ایک دن یوں ہوا میں جواں ہو گیا
میرا دشمن یہ سارا جہاں ہو گیا
زندگی کا یہی ہے اٹل فلسفہ
پہلے بچہ جواں پھر فناں ہو گیا
غالب ثانی ؔ
ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی

2
98
شکریہ

بھولے بھالے وہ بچے کہاں سو گئے
تھے انوکھے وہ دن اب کہاں کھو گۓ
فکرِ گلشن نہ تھی آشنائی نہ تھی
خواہ مخواہ یار اب ہم جواں ہو گۓ