بے حسی پیدا ہوئی میرے اٹھے ہاتھوں کے بیچ
فاصلہ میں اب رکھوں اپنی مناجاتوں کے بیچ
کچی آبادی یہ میری آفتوں میں گھر گئی
لمبا وقفہ چاہیے ہے اب کے برساتوں کے بیچ
میری قسمت میں اندھیرے اب تمنا دل میں ہے
دن نکل آئے کبھی اب درد کی راتوں کے بیچ
مجھ کو لگتا ہے بچھڑنے کا سمے نذدیک ہے
تلخیاں اب آ گئیں ہیں پیار کی باتوں کے بیچ
ساری خوشیاں اس کو دے کر درد مجھ کو دے دیئے
منصفوں نے فیصلہ لکھا ہے یہ کھاتوں کے بیچ
میں تو سمجھا تھا وفاؤں کا صلہ مجھ کو دیا
زہر اس نے دے دیا ہے مجھ کو سوغاتوں کے بیچ
اس سے جو کہنے گئے تھے بات دل میں رہ گئی
چند لمحے دے نہ پایا وہ ملاقاتوں کے بیچ

0
43