وقتِ سحر جمال کی صورت نہ پوچھئے
شامِ فراقِ یار کی وحشت نہ پوچھئے
پھیلا ہے کائنات میں ہر سمت اس کا رنگ
نیرنگیٔ خیال کی حیرت نہ پوچھئے
سینے میں جل رہی ہے یہ جو آگ عشق کی
حسن و جمالِ یار کی حدّت نہ پوچھئے
ہر شے کو اس طرح سے مکمّّل کیا گیا
صنعت کے اس کمال کی جدّت نہ پوچھئے
مانا ہے لطف ہجر کے ایّام کا الگ
دلبر کے پھر وصال کی لذّت نہ پوچھئے
آنکھوں کے سامنے وہی صورت رہے سدا
کتنی ہے اس کی یاد کی شدّت نہ پوچھئے
جی کر تو دیکھئے کبھی اس کے لئے ذرا
آئے گی زندگی میں وہ راحت نہ پوچھئے
طارق ذرا سا ہاتھ ہلانے کی دیر ہے
اتنی ملے گی کام کی اجرت نہ پوچھئے

0
10