نو رسیدہ شگوفے کِھلنے لگے
کُل چمن خوشبُو سے مہکنے لگے
نقشِ پا کے سراغ مٹنے لگے
"کارواں راستے بدلنے لگے"
باخبر حال سے بشر ہو گر
اُس کے دل کا جہاں چمکنے لگے
ہو تعفن بسا تخیل میں
بد نمائی کے خاکے جچنے لگے
طرزِ اصلاح کارگر ہو سکے
خیر سے رشتہ ناطہ جڑنے لگے
بخت روشن عمل سے ہوسکے اور
زیست میں انقلاب پلنے لگے
عزمِ راسخ ہے نسخۂ اِکسیر
جزبہ ناصؔر جی میں ابھرنے لگے

0
54