میں تشنہ صحرا میں ہوں تو سراب دیکھتا ہوں
اندھیروں میں بھی اجالوں کے خواب دیکھتا ہوں
سمجھ نہیں سکا جو مقصدِ حیات ابھی
یہ جاننے کو میں پڑھ کر کتاب دیکھتا ہوں
نہ پڑ سکی مجھے اب تک جو غور کی عادت
ہر ایک شے کو بہ نظرِ شتاب دیکھتا ہوں
نہیں وہ پیتا اگر ہے مری نظر کا قصور
میں اس کے ہاتھوں میں اکثر شراب دیکھتا ہوں
میں سوچتا ہوں نہیں فائدہ اٹھایا مگر
میں اپنے ہاتھ سے جاتا شباب دیکھتا ہوں
وہ روز آتا ہے انداز اک نیا لے کر
میں روز ایک نیا ماہتاب دیکھتا ہوں
جو وعدہ کر رہا ہے سب کو بخشوانے کا
نہ جانے کیوں اسے زیرِ عتاب دیکھتا ہوں
یقینِ قلب سے طارق سکوں نصیب ہوا
وگرنہ چہروں پہ میں اضطراب دیکھتا ہوں

0
61