مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن
تھی یار کو ضرورت اس سے نہ پیشتر
کیوں اس قدر ہے میرا وہ آج منتظر
پہلو ۓ یار میں میں سویا تھا ایک شب
تھی رات وہ قیامت کی پر تھی مختصر
مسکان تیری کرتی ہے کام اس جگہ
ہو جاتے ہیں جہاں سب ناکام چارہ گر
میرے سفر کی دشواری کو زرا سمجھ
اندھیرے راستوں میں جگنو ہے ہم سفر
جب جرم ہو محبت منصف ہو یہ نگاہ
تو حسن کی گواہی ہوتی ہے معتبر
مجھ کو بتاۓ وہ دنیا کے ستم کبھی
اس پل کا ہوں اسد جانے کب سے منتظر
ملک اسد
9-5-20

0
177