کبیرہ کچھ گناہوں کے سبب خَبال ہو گیا
عذاب کا سَروں پہ بے جا کچھ وَبال ہو گیا
غروب سلطنت پہ شمس جس کی ہو نہیں سکا
ابھرتی قومیت کا اس کی بھی زوال ہو گیا
رئیس بننے کے فراق میں حدیں پھلانگ دیں
کہ سود خوری کا بھی پیشہ اب حلال ہو گیا
سکونِ قلب کا حصول اصل میں شئہ ہے کچھ
حرام بَہرِ عیش کیا ملی، کمال ہو گیا
ِادھر سے ہَپ، اُدھر سے ہَپ، اُنہیں ہے سہل سب مگر
شریف لوگوں کا گزر بسر محال ہو گیا
طمع کے ناصؔر اس کمینہ کھیل سے گریز ہو
ہوس پرستی دیکھ کر بہت ملال ہو گیا

0
42