شکایت ہے تم سے نہ شکوہ کسی سے |
مگر مطمئن میں نہیں زندگی سے |
------- |
اداسی کے بادل جو دل پر ہیں چھائے |
یہ حالت ہے میری تری بے رخی سے |
--------- |
عجب سا زمانہ یہ ہم پر ہے آیا |
کہ خائف ہوا آدمی آدمی سے |
-------- |
ہمیشہ یہاں پر تو رہنا نہیں ہے |
کریں کیوں محبّت جگی عارضی سے |
-------- |
مقامِ رضا تم اگر چاہتے ہو |
ملے گا تمہیں وہ فقط بندگی سے |
-------- |
ملے پیٹ بھر کر وہ کافی ہے یا رب |
بچانا ہمیشہ ہمیں مفلسی سے |
------------ |
لڑانے کی عادت ہو جس آدمی میں |
سدا بچ کے رہنا اس سازشی سے |
--------- |
کمی آج دیکھی ہے چاہت میں اُن کی |
وہ آئے ہیں ملنے مگر بے دلی سے |
------------- |
ہوں سرشار اب میں محبّت میں اُن کی |
کہ روشن ہے چہرہ خوشی باطنی سے |
---------- |
ملا آج ارشد کو محبوب اس کا |
یہ بندھن بنا ہے بڑی سادگی سے |
----------- |
معلومات