خود کو شب بھر جگاتے ہو کہ نہیں
عشق میں پھڑپھڑاتے ہو کہ نہیں
چڑ کے کہنے لگے سرِ محفل
ابے او اٹھ کے جاتے ہو کہ نہیں
دے کے لفظوں کی مار کہتے ہیں
عشق سے باز آتے ہو کہ نہیں
دل لے کے کہتے ہیں جگر بھی دو
دیکھیں گے کاٹ لاتے ہو کہ نہیں
مدتوں بعد جو ملے تو کہا
اب بھی تم کچھ کماتے ہو کہ نہیں
کہتے ہیں شکل تو رہی نہیں ہے
اب کسی کو لبھاتے ہو کہ نہیں
شیخ کہتا ہے مے کشی اس قدر
بات کیا ہے بتاتے ہو کہ نہیں
ناتوانی ہے یوں کہ خود سے میں
کہتا ہوں مر بھی جاتے ہو کہ نہیں
کہا تھا راستہ کٹھن ہے زیبؔ
اشکِ غم اب چھپاتے ہو کہ نہیں

0
76