| خود کو شب بھر جگاتے ہو کہ نہیں |
| عشق میں پھڑپھڑاتے ہو کہ نہیں |
| چڑ کے کہنے لگے سرِ محفل |
| ابے او اٹھ کے جاتے ہو کہ نہیں |
| دے کے لفظوں کی مار کہتے ہیں |
| عشق سے باز آتے ہو کہ نہیں |
| دل لے کے کہتے ہیں جگر بھی دو |
| دیکھیں گے کاٹ لاتے ہو کہ نہیں |
| مدتوں بعد جو ملے تو کہا |
| اب بھی تم کچھ کماتے ہو کہ نہیں |
| کہتے ہیں شکل تو رہی نہیں ہے |
| اب کسی کو لبھاتے ہو کہ نہیں |
| شیخ کہتا ہے مے کشی اس قدر |
| بات کیا ہے بتاتے ہو کہ نہیں |
| ناتوانی ہے یوں کہ خود سے میں |
| کہتا ہوں مر بھی جاتے ہو کہ نہیں |
| کہا تھا راستہ کٹھن ہے زیبؔ |
| اشکِ غم اب چھپاتے ہو کہ نہیں |
معلومات