جلوہ گاہِ دہر کو رب سے فرماں مل گیا |
خاص جامہ مل گیا عام ساماں مِل گیا |
تھی مچلتی زندگی ہجر سے بے تاب سی |
دل جلوں کو کارواں اور استھاں مل گیا |
کل جہاں میں رونقیں زندگی میں سانس ہے |
بزمِ ہستی کو زہے جانِ سلطاں مل گیا |
اِس نمودِ خاک کی رستگاری کے لیے |
اِک طبیبِ جان سے خاص درماں مِل گیا |
ظُلمتِ طاغوت میں بھٹکی تھی مخلوق بھی |
ذاتِ والا سے یَقیں اور ایقاں مِل گیا |
پا لیا ہستی نے دل نِعمتِ برہان کو |
خلق کو پیارا سخی شاہِ شاہاں مِل گیا |
بے خبر محمود تھا منزلِ مقصود سے |
راہ پیما خیر سے تجھ کو سلطاں مِل گیا |
معلومات