میں اپنے ہونے کی تلاش میں نکل آیا،
یہ کون بول اٹھا — "یہ تُو نہیں، میں ہوں!"
ہر اک قدم پہ سفر خود بدل گیا،
کہ منزلوں میں بھی رستہ، کہیں میں ہوں۔
جو خواب آنکھ میں دیکھا تھا چپکے سے،
وہ ٹوٹنے پہ بھی زندہ، وہیں میں ہوں۔
کبھی میں سوچتا ہوں وقت کیا چیز ہے؟
جو مجھ کو گِن کے بھُلاتا، وہیں میں ہوں۔
یہ آئینہ بھی عجب بات کرتا ہے،
کہتا ہے تُو نہیں، پر کہین میں ہوں۔
میں حرف ہوں کسی ان کہی کہانی کا،
جو سن کے سب نے بھلایا، وہیں میں ہوں۔
یہ عشق تھا کہ کسی نظم کی تمہید تھی؟
جو حرف لب پہ نہ آیا، وہیں میں ہوں۔
جو زخم دل پہ لگے، خواب بن گئے،
اور ان کے زخموں میں جلتا، وہیں میں ہوں۔
یہ لوگ کہتے ہیں، میں خاموش رہتا ہوں،
میں شورِ دل میں الجھا، وہیں میں ہوں۔
کبھی کبھی تو مجھے خود پہ حیرت ہے،
میں کھو بھی جاؤں تو ملتا، وہیں میں ہوں۔
تُو سامنے ہو کے بھی احساس بن گیا،
“ندیم” سوچ میں رہتا، وہیں میں ہوں۔

0
7