| تری میری محبت میں وفائیں اور باقی ہیں |
| کہا تھا نا !! ابھی دل میں صدائیں اور باقی ہیں |
| جہاں بھر کے یہ غم جھیلے نصیبوں سے تری خاطر |
| خدا جانے ابھی کتنی سزائیں اور باقی ہیں |
| مری نظریں تری قسمت پہ جا ٹھہریں وہاں اب تو |
| چمن سے بس بہاروں کی فضائیں اور باقی ہیں |
| نجانے اس جدائی سے کبھی ہم ایک ہو پائیں |
| ہمارے پاس ورنہ یہ دعائیں اور باقی ہیں |
| خیالِ غم نہ بیتے پل نہ چاہت کی رہی باتیں |
| نگاہوں میں فقط اسکی ادائیں اور باقی ہیں |
| ترے دکھ میں نجانے کب تلک بہتی رہیں حامیؔ |
| مری آنکھوں میں اشکوں کی گھٹائیں اور باقی ہیں |
معلومات