دیکھ آ کر ماں کہ تیری قبر پر آیا ہے کون
قلب و جاں کے ساتھ آنسو درد کے لایا ہے کَون
چھوڑ کر تُم کیوں بھلا اک ننّھے سے معصوم کو
کر گئیں ہر پیار سے نا آشنا محروم کو
مجھ سے پہلے بھی مرے بھائی بہن پیدا ہوئے
وہ بھی تو ایسے ہی تیرے پیار کے شیدا ہوئے
ایک مشفق باپ کا تا دیر گو سایہ رہا
بھائی بہنوں کا تعلّق بھی گرانمایہ رہا
پھر بھی ماں اس وقت مجھ کو یاد تُو آتی رہی
جب بھی کوئی ماں کسی کے سر کو سہلاتی رہی
آج تک مجھ کو کوئی بھی میری جاں نا کہہ سکا
جس طرح مَیں بھی کسی کو میری ماں نا کہہ سکا
گرچہ مَیں خود بھی ہوں اب پیرانہ سالی کا شکار
پھر بھی مجھ کو یاد آتی ہے تُو دن میں بار بار
اور بھی کتنے ہی رشتے ہیں وفا کے پیار کے
پر اکیلی ماں ہی ہے جو جیتتی ہے ہار کے
اچھّا مجھ سے وعدہ کر جنّت میں جب جائے گی ماں
مجھ کو بھی اپنے خدا سے کہہ کے بلوائے گی ماں
“ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نَو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے “

0
249