نہ کوئی گھر ہے مرا اور نہ ٹھکانہ کوئی |
خزاں میں شاخ سے پتا کوئی بچھڑ جائے |
گرم ہوا کے بگولے میں پھنس کے اڑ جائے |
اسے ہوا لیئے پھرتی ہے دربدر یونہی |
نہ انتظار کسی کو کہ در کو کھول رکھے |
نہ آنکھ ایسی کوئی راہ دیکھتی ہی رہے |
نہ کان ایسے کوئی جو مری صدا کے لیے |
ہوا کی لہر پر ٹک جائیں بے قرار رہیں |
جو گھر سے صبح کو نکلے وہ آئے شام ڈھلے |
کہاں میں جاؤں کہ میرا تو کوئی گھر ہی نہیں |
میں اپنے آپ سے روٹھا ہوا مسافر ہوں! |
معلومات