نہ کوئی گھر ہے مرا اور نہ ٹھکانہ کوئی
خزاں میں شاخ سے پتا کوئی بچھڑ جائے
گرم ہوا کے بگولے میں پھنس کے اڑ جائے
اسے ہوا لیئے پھرتی ہے دربدر یونہی
نہ انتظار کسی کو کہ در کو کھول رکھے
نہ آنکھ ایسی کوئی راہ دیکھتی ہی رہے
نہ کان ایسے کوئی جو مری صدا کے لیے
ہوا کی لہر پر ٹک جائیں بے قرار رہیں
جو گھر سے صبح کو نکلے وہ آئے شام ڈھلے
کہاں میں جاؤں کہ میرا تو کوئی گھر ہی نہیں
میں اپنے آپ سے روٹھا ہوا مسافر ہوں!

0
73