اُجڑی ہوئی بستی میں آتے نہ تو اچھا تھا
سرشاری و مستی میں آتے نہ تو اچھا تھا
ہنگامۂ ہستی میں آتے نہ تو اچھا تھا
محشر طلباں آئے
افسوس! کہاں آئے
افسوس! یہاں آئے
اک کھیل عجب دیکھا، اک قہر، غضب دیکھا
اک زخم درونِ دل، آرام طلب دیکھا
کیا دیکھنا دیکھا اور دیکھا بھی تو کب دیکھا
کُھلنے پہ زباں آئے
افسوس! کہاں آئے
افسوس! یہاں آئے
کانٹوں میں پھنسا دامن، دامن کو چھڑانے میں
کچھ دیر تو لگتی ہے، کچھ دیر لگانے میں
ہے لطف خدا جانے، کیا جان کھپانے میں
کیا کیا نہ گماں آئے
افسوس! کہاں آئے
افسوس! یہاں آئے
کس طور گزارا ہو، کس طور کنارا ہو
ہم ہم نہ ہوں دل دل کے، دل دل نہ ہمارا ہو
اُس راہ چلے جائیں، جس راہ اشارہ ہو
فریاد و فغاں، آئے
افسوس! کہاں آئے
افسوس! یہاں آئے
مے کش تھے، خمار اندر، ہاتھوں سے سبو چھوٹا
آئینہ سا دل ٹوٹا، آنکھوں سے لہو پھوٹا
چہرے کو بہت نوچا، سینے کو بہت کوٹا
کر کر کے زیاں آئے
افسوس! کہاں آئے
افسوس! یہاں آئے
شاعر ہوئے کیا شاعر، دیوان ہمارا کیا
کیا فکر ہماری، کیا، وجدان ہمارا کیا
جب آپ ہوئے تنہاؔ، نقصان ہمارا کیا
بے نام و نشاں آئے
افسوس! کہاں آئے
افسوس! یہاں آئے

0
71