سفر میں ہوں مجھے منزل سے آشنا کر دے |
مریضِ عشق ہوں مجھ کو شفا عطا کردے |
میں اس لئے ترے گھر حاضری لگاتا ہوں |
کہ اپنے سارے گھروں میں تُو خود بُلا کر دے |
ستارے ماند ہوئے چاند کی ضرورت ہے |
نہ آسمان پہ رکھ اس کو رہنما کر دے |
بنے فساد کی آماجگاہ بحر و برّ |
زمیں پہ امن کا شہزادہ بادشہ کر دے |
اسی لئے تو نظر آسماں پہ رہتی ہے |
یہ تُو ہی جانتا ہے کب کسی کو کیا کر دے |
ملا ہے یا کہ ملےگا جو سب تجھی سے ہے |
میں جانتا ہوں نہ ہر چیز تُو بتا کر دے |
عجب ہے شان کہ حیران دیدہ و دل ہیں |
جو دیکھے جلوہ ترا صبح سے مسا کر دے |
ہے اس سے دعویٰ ء الفت تو یہ امید بھی ہے |
کوئی تو ہے جو عنایت کی انتہا کر دے |
فرشتے پیش کریں جا کے التجا میری |
سُنے تو سن کے مجھے سرخرو خدا کر دے |
کسوٹی قرب کو پانے کی ہے یہی طارق |
بصد خلوص و وفا خود کو تو فنا کر دے |
معلومات