اس شہر کے ہر گھر میں عجب آگ لگی ہے |
جس کو بھی ٹٹولو گے اسے اپنی پڑی ہے |
ہر چند کہ خورشید و قمر جلوہ نما ہیں |
آدم کے مقدّر میں وہی تیرہ شبی ہے |
خائف ہیں ابھی اس لئے تالے ہیں زباں پر |
اک آگ ہے جو وقت کے سینے میں دبی ہے |
مظلوم کی ہر بات پہ ناراض ہیں حاکم |
مونہہ کھولنا آقا کے لئے بے ادبی ہے |
وہ جبرِ مسلسل کہ مقفّل ہیں زبانیں |
یہ شہرِ خموشاں ہے یہاں تشنہ لبی ہے |
محسوس تو ہوتی ہے خَلِش دونو طرف کی |
حالات کی گردش پہ ابھی برف جمی ہے |
گر سامنا ہو جائے تو شاید اُٹھیں پردے |
پر کون کرے سامنا یاں کس کو پڑی ہے |
اس احمدِ مرسل پہ فدا تختِ سلیماں |
جو حشر کے میداں میں بھی شافع ہے غنی ہے |
ہم خاتمِ اُمّت ہیں تو وہ خاتمِ مُرسل |
جو اعلیٰ و ارفع ہے وہی میرا نبی ہے |
اللہ کرے اسباب تو پھر بطحا کو جاؤں |
امید یہاں جان وہاں رُوح پڑی ہے |
معلومات