وُہ میرے ھاتھ سے یُوں بھی نِکلتا جاتا تھا
عجِیب شخص تھا خوابوں میں ڈھلتا جاتا تھا
وُہ شام کِس کی امانت تھی؟ کِس کو سونپ آیا؟
نِدامتوں سے مِرا دل پِگھلتا جاتا تھا
مُجھے بھی روگ تھا جس کا علاج کوئی نہ تھا
اُسے بھی دُکھ تھا کوئی، جِس میں گلتا جاتا تھا
کِسی کا مُجھ سے بِچھڑنا کبھی نہ بُھول سکا
رُکے رُکے ھُوئے قدموں سے چلتا جاتا تھا
میں اُس کی بزم میں خُود کو سمیٹے بیٹھا رہا
بہت سنبھالا مگر دل پِھسلتا جاتا تھا
وہ ایک شخص جسے تھا غرور ہستی پر
ابھی ابھی تھا یہاں ہاتھ ملتا جاتا تھا
فقط خیال سمجھ کر جھٹک دیا تھا جسے
مِرے وجُود کو اب وُہ نِگلتا جاتا تھا
کِسی غریب کے بچے کی طرح میرا دل
کِھلونے دیکھتا جاتا، مچلتا جاتا تھا
رشیدؔ وقت کوئی مجھ پہ ایسا گزرا ہے
شراب پِیتا تو کُچھ کُچھ سنبھلتا جاتا تھا
رشید حسرتؔ

0
92