جانے کہاں سے آتی ہے بے چینی صبح صبح
بیگانے درد کرتے ہیں سرگوشی صبح صبح
شب تو گزاری تھی کسی امید پر مگر
پھیلی گھنی اداسی کی تاریکی صبح صبح
گزری تھی شب بھی ہاں اسی بربادی میں مگر
چھیڑا ہے دل نے نغمئہ بربادی صبح صبح
یہ ہم ہی ہیں کہ درد کو اک فن بنا دیا
کس سے یہ دیکھی جاتی تھی بد حالی صبح صبح
اب ہم کو بھی یہ وحشتِ جاں راس آ گئی
پہلے پہل تو ہوتی تھی حیرانی صبح صبح
میں جس کے ساتھ تھا شبِ وحشت میں گم کہیں
میں کیا کروں کی یاد وہی آئی صبح صبح

0
32