| جو رہا کرتے تھے راہیں تری تکتے وہی سب |
| عمر بھر چین سے جی لینے کو ترسے وہی سب |
| مجھ پہ ہنستے تھے جو پاگل مجھے کہہ کر کہو کیوں |
| دیکھے ہیں سر اسی چوکھٹ پہ پٹختے وہی سب |
| جان و دل آپ پہ قربان یہ دعویٰ تھا مگر |
| آئے لاشے پہ مری گاتے تھرکتے وہی سب |
| تختہِ دار تو منظور تھا، منظور نہ تھا |
| جو کہا جائے کہوں اپنی زباں سے وہی سب |
| اس نے جو کچھ بھی کہا مجھ کو لگا یوں ہی، مگر |
| ڈر رہا ہوں وہ کہیں دل سے نہ کہہ دے وہی سب |
| ہائے الفاظ کے تیروں سے کچوکوں کے نشاں |
| کاش واپس انھیں لیکر اِنھیں بھردے وہی سب |
| شہر کے پیار میں وہ گاؤں سی سچائی کہاں |
| ورنہ بستے ہیں وہاں بھی مرے تجھ سے وہی سب |
| لادو بچپن کے وہی کھیل کھلونے مجھے تم |
| گلی ڈنڈا، کوئی لٹو، مرے کنچے، وہی سب |
| جو کیا کرتا ہوں میں اپنے بڑوں سے حبیب آج |
| کیا نہ دہرائیں گے کل، سب مرے بچے، وہی سب |
معلومات