جب لفظ کاغذ پر اترتے ہیں، |
تو وہ پہلے برہنہ ہوتے ہیں — |
نہ کوئی رنگ، نہ آہنگ، نہ رعنائی، |
صرف خالی کاغذ کی سادگی، اور خاموشی۔ |
پھر احساس آتا ہے… |
اور ایک ایک حرف کو |
لباسِ آگہی پہنا دیتا ہے، |
جیسے روشنی اندھیروں میں چھپے تاروں کو روشن کر دے۔ |
قلم، جیسے کوئی درویش ہو، |
جو خلوص کے سجدے میں گم ہو جائے، |
اور الفاظ اس کے ہاتھوں میں تسبیح بن جائیں، |
پھر ہر لفظ دلوں کی گہرائیوں میں اترے۔ |
سچ لکھنے والوں کے دل میں |
ہمیشہ ایک چنگاری رہتی ہے — |
جو جھوٹ کے پردے جلا دیتی ہے، |
اور اندھیروں میں بھی روشنی دکھا دیتی ہے۔ |
خواب جو چھپ جاتے ہیں آنکھوں کی پرتوں میں، |
محبت جو لفظوں میں چھپ کر رہ جاتی ہے، |
یادیں جو وقت کے ساتھ مدھم ہو جاتی ہیں، |
سب انہی برہنہ حروف سے جنم لیتے ہیں۔ |
انہی کو دیتا ہے احساس سے لباسِ آگہی، |
قلم سے پیدا ہوتے ہیں جب برہنہ حروف۔ |
ہر حرف ایک کہانی، ہر لفظ ایک صدا، |
جو سننے والے کے دل کو چھو جائے، |
اور لفظ اپنے آپ میں زندگی بن جائے، |
یہی ہے قلم کی جادوگری، یہی ہے برہنہ حروف۔ |
معلومات