ریگِ صحرا میں شجر چپ کی زباں بولتا ہے
راستہ بوڑھے مسافر سے کہاں بولتا ہے؟
جب کنارے کے قریں اس کے حسیں آنچل کا
عکس پڑتا ہے تو پھر آبِ رواں بولتا ہے
میں نے دیکھا ہے یہ اعجازِ مسیحائی بھی
پھول کھل اٹھتے ہیں وہ شخص جہاں بولتا ہے
داستانیں ہیں سرِ راہ تری پلکوں کی
تیری آنکھوں کی زباں سارا جہاں بولتا ہے
عقل حیران ہے اس ذوقِ ہنر مندی پر
جس جگہ ہوتا نہیں ہے وہ وہاں بولتا ہے
میں نے دیکھا ہے کئی بار مخاطب کرکے
آگ خاموش ہی رہتی ہے دھواں بولتا ہے
ایک سر کٹنے کے ڈر سے رہا خاموش مگر
ایک سر ہے جو یہاں نوکِ سناں بولتا ہے
تم اگر اب بھی نہ مانو تو تمہاری مرضی
اس کے ہونے کا تو ہر ایک نشاں بولتا ہے
صاف ظاہر ہے کہ تم غور سے سنتے ہی نہیں
میری بستی کا تو ہر ایک مکاں بولتا ہے

0
20