ہو نظر کرم کی تو یا نبی، غمِ دو جہاں سے رِہا ملے
یہ رِہا بھی بہرِ عطا ملے، یہ عطا بھی بہرِ خدا ملے
ہو نظر ادھر پئے فاطمہ، جنہیں حق نے بخشا ہے مرتبہ
ہے جو روپ ہو بہ ہو آپ کا، اسی واسطے سے عطا ملے
ہو کرم علی کا ہے واسطہ، جنہیں حق نے مولیٰ بنا دیا
جو فنا بقا کا ہے آئینہ، اسی راہبر سے ہدیٰ ملے
ہے جو بعد آپ کے مجتبیٰ، وہ حسن ہمارے ہیں پیشوا
ہے جو حق سے آپ کے حق نما، ملے ان سے روح کو جلا ملے
وہ شہیدِ اعظمِ کربلا، نہیں ثانی جن کا ہے دوسرا
ہے حسین آپ سے رہنما، اسی صدقے طرزِ وفا ملے
جو کبھی کرم کی زکوٰۃ دیں، ہمیں عاشقوں کی صفات دیں
جو پسند ہو ایسی حیات دیں، نہیں مانگی جو، وہ دعا ملے
ذكیؔ اك فقیر ہے پیر كا، ہے جو نور بدرِ منیر كا
ہے تقاضہ اس كے ضمیر كا، كہ فقیر پیر سے جا ملے

58