دیکھنے والے کیا نہ دیکھیں گے
تیرے اندر وفا نہ دیکھیں گے
ہجر میں تیرے عاشقِ بیمار
کبھی شکلِ دوا نہ دیکھیں گے
مئے دو آتشہ پئیں گے خوب
اپنا اچھا، برا نہ دیکھیں گے
تیری چوکھٹ پہ آ پڑیں گے رات
تیرے مے خوار جا نہ دیکھیں گے
وصل کی رات ہم درندہ صفت
تیرے ناز و ادا نہ دیکھیں گے
ظلم کر دیکھ تُو مگر کیا ہم
زورِ عشق آزما نہ دیکھیں گے
تیرے لاچار، نفسیاتی مریض
جانبِ لخلخہ نہ دیکھیں گے
بادہ خانے کے مغ بچے ہیں شریر
مرتبہ شیخ کا نہ دیکھیں گے
میرؔ کے بعد لوگ تنہاؔ جی!
آپ سا دل جلا نہ دیکھیں گے

0
74