جو ظلم کرنے میں یوں کسی پر گیا وہ تُل ہے تو کچھ کروں میں
جو بالمقابل ہوا خدا کے گیا وہ رُل ہے تو کچھ کروں میں
اداس راتوں میں نیند آئے تو خواب اس کو خراب کر دیں
خموش لمحوں میں دل کی دھڑکن کا شور و غُل ہے تو کچھ کروں میں
خزاں کے بعد اب بہار آئے کِھلیں پھر اک بار گُل چمن میں
ہزاروں پھولوں کو میں نے اب تک جو کھو دیا ہے تو کچھ کروں میں
نہیں ہیں بادل نہ کوئی بارش فضا کی مسموم ہیں ہوائیں
کہیں سے کوئی نہ ابرِ رحمت برس رہا ہے تو کچھ کروں میں
ہے چاند نکلا جو چودھویں کا جہاں میں ہر سمت روشنی ہے
مگر جو ایسے میں گھر کا کرتا چراغ گُل ہے تو کچھ کروں میں
زمانہ کہتا ہے سن رہے ہیں کہ تم ہو جو امن کے ہو قاتل
جو ملنے جائے تو بند کرتا وہ سارے پُل ہے تو کچھ کروں میں
میں اس کے آگے جُھکاؤں گردن جو مالکِ جسم و جاں سبھی کا
بتوں کے آگے جھکا اگر یہ جہان کُل ہے تو کچھ کروں میں

0
11