اونچا, بلند پایہ ستارہ علیؑ کا ہے
ہر خلق کی زبان پہ نعرہ علیؑ کا ہے
بغداد, کاظمین, بخارا علیؑ کا ہے
منظر فضائے دہر میں سارا علیؑ کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں نظارا علیؑ کا ہے
مثلِ نبیؐ وہ نیک چلن, مجتبیٰ حسنؑ
ہیں آب و تابِ چرخِ کُہن, مجتبیٰ حسنؑ
زیبائے حُسنِ باغِ عدن, مجتبیٰ حسنؑ
دنیائے آشتی کی پھبن, مجتبیٰ حسنؑ
لختِ جگر نبیؐ کا تو پیارا علیؑ کا ہے
ختم آپ سے ہوے ہیں فِتن, مجتبیٰ حَسنؑ
مولائیوں کے دل کی لَگن, مجتبیٰ حَسنؑ
اور باغیوں کے دل کی چُبَھن, مجتبیٰ حَسنؑ
دنیائے آشتی کی پَھبن, مجتبیٰ حَسنؑ
لختِ جگر نبیؐ کا تو پیارا علیؑ کا ہے
بے مثل و لاجواب حسینؑ آسماں جناب
فردوس کا نَواب حسینؑ آسماں جناب
اسلام کا نصاب حسینؑ آسماں جناب
ہستی کی آب و تاب حسینؑ آسماں جناب
زہراؑ کا لعل, راج دلارا علیؑ کا ہے
ہے کون؟ روبرو جو علیؑ کے کَھڑا ہُوا
للکارا جس نے بھی وہ سپردِ قَضا ہُوا
اِک وار سے گِرا ہے زمیں پر کَٹا ہُوا
مرحب دو نیم ہے سرِ خیبر پَڑا ہُوا
اُٹھنے کا اب نہیں کہ یہ مارا علیؑ کا ہے
مولائے کائناتؑ ہیں حق, اور یہ حق رَساں
یعنی یہی ہیں وہ جو ہیں دنیا مِیں بے نِشاں
ماہِ مُبیں حُسینؑ, علیؑ مِہرِ ضو فِشاں
کُل کا جمال جُزو کے چہرے سے ہے عَیاں
گھوڑے پہ ہے حُسینؑ نَظارا علیؑ کا ہے
پُر شکوہ تُو ہے, تجھ پہ خدا کا ہے فضلِ خاص
یہ کوئی وہم ہے نہ گُماں کوئی نا قیاس
عظمت یہی تِری, یہی دولت یہی اَساس
اے ارضِ پاک تجھ کو مبارک کہ تیرے پاس
پرچم نبیؐ کا چاند ستارا علیؑ کا ہے
فقرِ نبیؐ میں زندگی حیدرؑ نے کی بَسر
یہ دو ٹَکے کے شاہ, یہ کم ظرف کم نظر
ہے اِن کو لطفِ فقرِ محمدؐ کی کیا خبر
اہلِ ہَوس کی لقمہِ تر پر رَہی نظر
نانِ جَویں پہ صرف گُزارا علیؑ کا ہے
جو لوگ بھول بیٹھے رسولِ خداؐ کا ڈر
واللہ کَلَن٘ک تھے بَشَرِیَّت پہ وہ بَشر
ہر ایک لمحہ کرتے رہے دین سے مَفر
اہلِ ہَوس کی لقمہِ تر پر رَہی نظر
نانِ جَویں پہ صرف گُزارا علیؑ کا ہے
ملتا نہیں یہ عشق کسی بھی نصاب مِیں
مُلّاں خفا ہے ہم سے, ہے واعظ عتاب مِیں
ہم آئیں گے کبھی نہ کسی پیچ و تاب مِیں
تم دخل دے رہے ہو عقیدت کے باب مِیں
دیکھو معاملہ یہ ہمارا, علیؑ کا ہے
الحمدللہ منہ میں نوالے, علیؑ کے ہیں
گرتے نہیں کبھی, کہ سنبھالے علیؑ کے ہیں
ہم روزِ اوّلیں سے حوالے علیؑ کے ہیں
ہم فقر مست چاہنے والے علیؑ کے ہیں
دل پر ہَمارے صرف اِجارا علیؑ کا ہے
دیکھا جو اِک جَھلک تو علیؑ کا گُماں ہُوا
ہے ویسا ہی شَجیع, ہے ویسا ہی دبدَبہ
صورت وَہی, وَہی ہے جبلت وَہی اَدا
آثار پڑھ کے مہدیِؑ دوراں کے یوں لَگا
جیسے وہ بھی ظہور دُبارا علیؑ کا ہے
امت میں اور کون ہے مولا بَجُز علیؑ
مشکل کُشا نہیں کوئی دیکھا بَجُز علیؑ
کس کا نام ہُوا ہے دِلاسا بَجُز علیؑ
دنیا میں اور کون ہے اپنا بَجُز علیؑ
ہم بے کسوں کو ہے تو سَہارا علیؑ کا ہے
ایک ایک کو حضورؐ سے ہے مرتبہ مِلا
کوئی عتیقؓ کوئی عمرؓ اور غنیؓ ہُوا
یہ بھی تو دیکھیے زرا مولا کِسے کہا
اصحابی کالنجوم کا ارشاد بھی بَجا
سب سے مگر بلند ستارا علیؑ کا ہے
حیدرؑ کا رتبہ ظاہر احادیث سے ہُوا
کچھ بھی کہے کوئی ہمیں تو اتنا ہے پَتا
ہارونؑ کی مثال اِسے مرتبہ مِلا
اصحابی کالنجوم کا ارشاد بھی بَجا
سب سے مگر بلند ستارا علیؑ کا ہے
خیرات لینے کو کھڑے ہیں صاحبِ لُغات
ہوتے ہیں سجدہ ریز یہیں پر قلم دَوات
شاہؔد! علیؑ کا در ہے جُھکا سر کو, باندھ ہاتھ
تُو کیا ہے اور کیا ہے تِرے علم کی بِساط
تجھ پر کرم نصیرؔ یہ سارا علیؑ کا ہے

0
64