وفا کی رسمیں نبھانے والو بتاؤ اتنے اداس کیوں ہو
ابھی تو پہلی خزاں کی رت ہے ابھی سے ایسے نراس کیوں ہو
تمہیں خبر تھی وفا کے رستے بچھے ہیں کانٹے ہزار دکھ ہیں
یہاں پہ ساقی بجھا بجھا ہے یہاں پہ سارے خمار دکھ ہیں
یہاں کسی کو نہیں میسر سکون دل کا قرار دل کا
یہاں سبھی کا بنا ہے دشمن خیالِ جاناں غبار دل کا
یہاں تو مقتل سجا ہے برسوں یہاں سے لاکھوں قتیل نکلے
عقیل جتنے یہاں پہ آئے سدا یہاں سے ذلیل نکلے
یہاں کی قسمیں یہاں کی رسمیں یہاں کے وعدے سبھی فسانے
یہاں شکاری نئے ہیں لیکن ہیں طور سب کے وہی پرانے
اگر ہو ممکن تو میری مانو کہ ناز نخروں سے دور رہنا
حسین سارے ہیں فتنہ پرور کہ دور ان سے حضور رہنا

0
24