اب تو ماتم ہے زندگانی کا
زندگی نام رائیگانی کا
دل نے سرکار خود کشی کر لی
کل جنازہ ہے آنجہانی کا
ہاتھ اٹھتے نہیں دعا کے لئے
اب یہ عالم ہے بد گمانی کا
پھر لگے سب ہنسی خوشی رہنے
ایک انجام ہر کہانی کا
تم چلے ہو تو ساتھ لے جاؤ
کیا کروں گا میں اس نشانی کا
مجھ کو موسی سمجھ لیا ہے کیا
شور کیسا ہے لن ترانی کا
اک حسینہ، شراب مدہوشی
عشق سامان ہے جوانی کا
ہم اسے دیکھنے کو تر سے ہیں
جس کو شکوہ ہے بے دھیانی کا
اب یہاں بلبلیں تو آئیں گی
شوق پالا ہے باغبانی کا
سب سے پہلا مکاں خدا کا ہے
اس پہ دعوی ہے لا مکانی کا
سنگ باری ہے مضطربؔ ہم پر
حظ اٹھاتے ہیں گل فشانی کا

0
116