ہونٹوں پر مسکان سجاکر دل میں پیار جگا سکتے تھے |
نفرت دوری بغض و حسد کی سب دیواریں ڈھا سکتے تھے |
زلفوں کے سر کرلینے کو سختی نے دشوار بنایا |
ورنہ ہر دل کی بستی میں دل کے رستے جا سکتے تھے |
خود ہی لاکھوں روگ لگائے پاگل دل کو ورنہ ہم بھی |
اس دنیا کی سب راہوں پر ہنستے گاتے جا سکتے تھے |
روز و شب اس کی گلیوں میں آنا جانا ٹھیک نہیں تھا |
مانا بات سہی تھی لیکن کیا دل کو سمجھا سکتے تھے |
دنیا نے جب تم سے پوچھا تم خاموش رہے تھے، ہم بھی |
اے بے درد زمانے والو کوئی بات بنا سکتے تھے |
ہر فتنے کی آگ کے شعلے سرد کئے ہیں ورنہ یارو |
جوشیلے نعروں سے ہم بھی جذبوں کو بھڑکا سکتے تھے |
اس کی باتوں کے افسوں سے ہم واقف تھے لیکن کتنے |
سیدھے بھولے سچے سادے بہکائے میں آ سکتے تھے |
دائیں بائیں آگے پیچھے کتنے تھے جب وقت پڑا تو |
ہم بھی ان جیسے ہوتے تو تجھ کو چھوڑ کے جا سکتے تھے |
دنیا والوں کے پہلو میں دل کب تھا پتھر رکھا تھا |
ورنہ مظلوموں کے آنسو سینوں کو دھڑکا سکتے تھے |
ہم بھی سب جیسے ہوتے تو کوئی خطاب اچھا سا پا کر |
مولوی مفتی سر علامہ مولانا کہلا سکتے تھے |
صبر ہمیں تعلیم ہے ورنہ اے بے درد زمانے والو |
مظلوموں کی آہیں بن کر فرش سے عرش ہلا سکتے تھے |
نہ کوئی دریا اور نہ سمندر جس کو ٹھنڈا کر سکتا تھا |
ہم اپنے شعروں سے دلوں میں آگ ایسی بھڑکا سکتے تھے |
کن کے پاس گئے تھے ہم بھی گل پاشی کی آس لگائے |
پتھر بستی والے پتھر، پتھر ہی بر سا سکتے تھے |
جرات ہمت بیباکی سچائی حق گوئی کے صلے میں |
ہم تھے، تیر و تبر کے چرکے جو سینے پر کھا سکتے تھے |
طعن کے طنز کے دشنامی کے ،پتھر ، اور حبیب کے ہوتے |
کون تھے اتنی جرات والے جو تم پر برسا سکتے تھے |
معلومات