(نبی مختار کل ہیں مثنوی)
کرتا ہوں میں حمدِ رب سے ابتدا
بھیج تو رحمت محمد پر سدا
ذات تیری ابتدا ہر ایک کی
ذات تیری انتہا ہر ایک کی
میرے سب الفاظ تیرے نام ہوں
عشق احمد سے بھرے وہ جام ہوں
مجھ پہ ایسے یا خدا انعام ہوں
ہر زباں الفاظ میرے عام ہوں
چار یارِ مصطفی سب با وفا
رتبہ ہے اصحاب میں جن کا جدا
پیر میرا ہے علی مشکل کشا
حیدرِ کرار وہ شیرِ خدا
رہنما ہے میرا شہ بغداد کا
میں سدا نوکر تری اولاد کا
لکھ رہاہوں قصےجن کی شان کے
لاڈلے ہیں وہ نبی رحمان کے
ہیں نبی میرے محمد آخری
جن کو رب نےحکمت و طاقت بھی دی
وہ خدا مالک حقیقی ہے سدا
وہ نبی مختارِ کل رب کی عطا
ان کو اللہ نے دیا ہر معجزہ
دی خدا ہر ایک طاقت ہر عطا
تم کو اللہ نے تصرف سب دیے
مردے بھی تو زندہ تم نے کر دیے
روتی کلیوں کو ہسایا آپ نے
مردہ دل کو بھی جِلایا آپ نے
جوڑی ہے چشمِ قتادہ آپ نے
موڑی ہے بکری کی جاں بھی آپ نے
ڈوبے سورج کو بھی پھیرا آپ نے
کر دیا وہ چاند ٹکڑے آپ نے
پھرتا ہے قبلہ رضا تیری پہ ہی
رب بھی راضی ہے رضا تیری میں ہی
ہاتھ جو پانی سے تم نے مس کیے
انگلیوں سے پانی کے چشمے بہے
رب نے موسی کو یدِ بیضاء دیا
اور دیدارِ خدا۔ تم کو دیا
تم امامِ انبیاء ہو یا نبی
ہیں نبی سارے تمھارے مقتدی
بیٹیوں کو بھی بچایا تم نے ہے
انساں کو انساں بنایا تم نے ہے
تم تو ہر اک کی سمجھتے ہو زباں
بے زبانوں کی سنی ہے داستاں
واہ کیا شاں تیری ہے میرے نبی
کل خدائی پر حکومت ہے تری
ہرنی نے قصہ سنایا ہے تمھیں
درد بچوں کا بتایا ہے تمھیں
چل کے تیرے پاس آتا ہے شجر
کلمہ مُٹّھی میں سناتا ہے حجر
تم ہی ہو سردارِ کل مختارِ کل
تم رسولِ کل ہو تم محبوبِ کل
تم شفیعِ روزِ دِیں ہو یا نبی
عاصیوں کو آس تم پر ہی لگی
یاد تیری سے لو عاجز کو لگی
کرنا تم اس کی شفاعت یا نبی

0
2