جب سے مرے قریب وہ صورت نہیں رہی
تب سے مرے سکون میں برکت نہیں رہی
اس کا وجود تھا، بخدا، جان تھی مری
جب سے گیا ہے قلب میں حرکت نہیں رہی
دل مبتلا عجیب کسی وسوسے میں ہے
سچ سچ بتا دے یار ، محبت نہیں رہی؟
جو تم سے مانگتا ہے کبھی دل کبھی وفا
مجھ سے تو کہہ رہا تھا ضرورت نہیں رہی
یہ وصل بھی تو دیکھ مصیبت ہی بن چکا
اب چاند تکتے رہنے کی فرصت نہیں رہی
میرے بدن کو کھینچ رہا ہے کوئی بدن
اب دور کے سفر کی اجازت نہیں رہی
وعدہ نہیں ہے یاد خدا سے کیا تھا جو
وعدہ نباہنے کی تو زحمت نہیں رہی
پردہ اٹھا کے دیکھ مری تشنگی مٹا
اب اور انتظار کی ہمت نہیں رہی
رک رک نقاب اوڑھ کہیں یہ نہ ہو کہ میں
کہتا پھروں کہ دید کی حسرت نہیں رہی

92