| جب سے مرے قریب وہ صورت نہیں رہی |
| تب سے مرے سکون میں برکت نہیں رہی |
| اس کا وجود تھا، بخدا، جان تھی مری |
| جب سے گیا ہے قلب میں حرکت نہیں رہی |
| دل مبتلا عجیب کسی وسوسے میں ہے |
| سچ سچ بتا دے یار ، محبت نہیں رہی؟ |
| جو تم سے مانگتا ہے کبھی دل کبھی وفا |
| مجھ سے تو کہہ رہا تھا ضرورت نہیں رہی |
| یہ وصل بھی تو دیکھ مصیبت ہی بن چکا |
| اب چاند تکتے رہنے کی فرصت نہیں رہی |
| میرے بدن کو کھینچ رہا ہے کوئی بدن |
| اب دور کے سفر کی اجازت نہیں رہی |
| وعدہ نہیں ہے یاد خدا سے کیا تھا جو |
| وعدہ نباہنے کی تو زحمت نہیں رہی |
| پردہ اٹھا کے دیکھ مری تشنگی مٹا |
| اب اور انتظار کی ہمت نہیں رہی |
| رک رک نقاب اوڑھ کہیں یہ نہ ہو کہ میں |
| کہتا پھروں کہ دید کی حسرت نہیں رہی |
معلومات