ملاوٹ کی تجارت ہے
ملاوٹ کی تجارت ہے
ریا کاروں کی حکمت ہے
یہ ہے مٹی میں انساں کی
بدلنا اسکی فطرت ہے
یہ مطلب کا جہاں پیارے
تو پھر کیا شے محبت ہے
سفر یہ زیست کا مشکل
خزاں جیسی مسافت ہے
گنہہ گاروں کی دنیا میں
عبادت بس عبارت ہے
کہیں ڈھونڈھے نہیں ملتی
وہ نادر شے اخووت ہے
مرے پیچھے مری غیبت
زمانے کی تو عادت ہے
حمیرا یہ مری سنگی
مجھے اردو سے چاہت ہے

167