آج کچھ بات کرنے آئے تھے
دن میں ہی رات کرنے آئے تھے
جسمِ خاکی اتار کر سرِ طور
اک ملاقات کرنے آئے تھے
آپ تو بس خموش بیٹھے ہو
ہم تو کچھ بات کرنے آئے تھے
جانے اس دشتِ شوق میں مرے سائے
کیا مرے ساتھ کرنے آئے تھے
عشق، وحشت، جنوں، عذابِ ہجر
ہم پہ سوغات کرنے آئے تھے
اس جہانِ خراب میں آخر
کیوں بسر رات کرنے آئے تھے
وہ پرانی کہانی کے بادل
رات برسات کرنے آئے تھے
ہم نے کب بازی جیتنا تھا کہ ہم
اپنی ہی مات کرنے آئے تھے
کیا عجب میری جان کے دشمن
کل مصافات کرنے آئے تھے
جاں ہتھیلی پہ رکھے عشق گلی
ہم بھی خیرات کرنے آئے تھے
اک تمنّا لیے چلے آئے
خواب کو ذات کرنے آئے تھے
کچھ تو دل کی شکستگی پہ ہنسے
کچھ کرامات کرنے آئے تھے

53