دل دیکھتے ہی دیکھتے ویران ہو گیا |
ہاں عشق کر کے مجھ کو یہ نقصان ہو گیا |
اس کی جفا کے داغ وفاؤں سے دھو دیئے |
اپنے کئے پہ پھر وہ پشیمان ہو گیا |
اس دورِ موج خیز میں جینا محال ہے |
مرنا تو اس جہان میں آسان ہو گیا |
خوں خوار اس جہان میں ہمدرد ہوگئے |
انسان اپنی شکل میں حیوان ہو گیا |
چھوٹی نہ جس کے ہاتھ سے یاں پاکدامنی |
اے دوستو وہ یوسفِ کنعان ہو گیا |
اے بے وفا تجھے تو نوازا جہان نے |
میرے سفر کا غیب سے سامان ہو گیا |
مفعول فاعلات مفاعیل فارحہؔ |
مقطع بھی تیرا بحر کی پہچان ہو گیا |
معلومات