‏‎عشق کے سارے مراحل پار سمجھو کر گیا
‏‎موت سے پہلے یہاں پر آدمی جو مر گیا
‏‎خالی لے کے گھومتے پھرتے تھے ویرانوں میں ہم
‏‎- کاسہء دل کو ہمارے اک سوالی بھر گیا
‏‎کیا عجب ہے سلسلہ شوقِ نصابِ عشق کا
‏‎ڈھونڈنے نکلا جو خوشیاں لے کے دامن تر گیا
‏‎کیا سُنائیں حالِ مقتل کیا کہیں کیا کیا ہوا
‏‎یاں بچایا دل وہاں کاندھے سے اپنے سَر گیا
‏‎کچھ چلا بامِ تجّلی کچھ وہیں پر رہ گیا
‏‎جو تِرے در سے گیا، وہ کب مکمّل گھر گیا۔

0
15