تجھ سے مل کے میری سوچیں سوگوار ہو گئیں
مسکراہٹیں کیوں دکھ سے ہمکنار ہو گئیں
مجھ میں تھیں جو خوبیاں وہ خامیوں میں ڈھل گئیں
خامیاں جو تھیں مزید آشکار ہو گئیں
راکشس کو نیند سے نجانے کیوں اٹھا دیا
خواہشیں میری تمام داغدار ہو گئیں
آنکھیں تر تھیں ہر گھڑی وہ حالتِ وضو میں تھیں
خشک ہو کے آج کل گنہہ گار ہو گئیں
صورتیں جو دیکھ کر یہ زندگی تھے جی رہے
صورتیں وہ ہی تمام ناگوار ہو گئیں

24