میرا بھی گھر کہیں پہ ہے، بے گھر نہیں ہوں میں
ٹھوکر نہ مار، راہ کا کنکر نہیں ہوں میں
ہوتا ہے ٹوٹ جانے کا احساس مجھ کو بھی
سینے میں دل مرے بھی ہے، پتھر نہیں ہوں میں
آ میرے پاس بیٹھ جا، مجھ سے نہ خوف کھا
مانا کہ تند خو ہوں، ستمگر نہیں ہوں میں
ماں باپ جو کہیں گے، بس اس کو ہی ماننا
شاید تمہارے واسطے بہتر نہیں ہوں میں
سب سے گناہ ہوتا ہے، مجھ سے بھی ہو گیا
بچتا بھی کس طرح سے، پیمر نہیں ہوں میں
یوں ہو رہا ہے ذکر مرا اک جہان میں
صد حیف ہے کہ تیرے لبوں پر نہیں ہوں میں
تو سچ دکھا رہا تھا، سو باہر نہیں ہے تو
میں سچ چھپا رہا تھا، سو اندر نہیں ہوں میں
اک عمر اپنی کاٹ دی میں نے، پر آج تک
شکرِ خدا ہے، بوجھ کسی پر نہیں ہوں میں
اندازِ گفتگو پہ تقیؔ داد وہ دیے
کل تک جو کہہ رہے تھے، سخن ور نہیں ہوں میں

3