میں نے کہا کہ ہم وہ دوانے نہیں رہے
کہنے لگی کہ اب وہ زمانے نہیں رہے
پوچھا کہ اگلی بار ملو گی مجھے کہاں
کہنے لگی کہ اب وہ ٹھکانے نہیں رہے
بولی خطوط کا کوئی اب فائدہ نہیں
کہنے کو اب کوئی بھی فسانے نہیں رہے
پوچھا کہ میری یاد رلائے گی اب کبھی
اس نے کہا کہ اب وہ سرہانے نہیں رہے
ڈھونڈوں کہاں کہ اب کوئی ہمدرد ہی نہیں
کہنے لگی کہ لوگ سیانے نہیں رہے
میں نے کہا کہ پوچھ لوں اک آخری سوال
بولی کہ اب کوئی بھی بہانے نہیں رہے

58