منظر حسین و پُر مزہ ہوتا بہار سے |
چھائے سکون گردِشِ لیل و نہار سے |
نرگس، گلاب، یاسمیں سے مہکے کُل چمن |
گل بن کے پھوٹتا ہے لہو شاخسار سے |
پیاسی زمین ہوتی ہے سیراب مینہ سے |
سوندھی مہک بھی پھیلتی ہلکی پھوار سے |
آمد کی پھیلی تھی جو خبر جانِ من کی تب |
بے چین ہو رہے تھے سبھی انتظار سے |
صحرا کے راہی خطروں سے بھی ہوشیار ہوں |
طوفان ڈھاتا غیض و غضب ہے غبار سے |
ماتم غموں کا کرتے ہیں وہ جان لے یہاں |
گل مسکرائے کہتے، نہیں ڈرتے خار سے |
کھاتے ہیں ٹھوکریں انہیں ناصؔر نہ خوف ہو |
سیکھے سنبھلنا خوب ہی ہر کوئی ہار سے |
معلومات