| آسماں پر رنگ و بو کا اک عجب احساس ہے |
| لگتا ہے جوّ کو بھی تیرے آنے کا ہی پاس ہے |
| کیوں زمیں خندیدہ سی ہے آسماں ترسیدہ سا |
| ان کو بھی تو آمدِ محبوب رب کی آس ہے |
| نہرِ نخلِ باغ جنت کی نہیں ہے آرزو |
| تیرے ہاتھوں جامِ کوثر پینے کی بس پیاس ہے |
| بت گرے ہیں سجدہ میں اور کر رہے ہیں یہ بیاں |
| رب بشر کے روپ میں ہے یہ ہمیں وِشواس ہے |
| بلبلیں بھی دوڑے آئیں تیرے ہی زندان میں |
| میرے ماہی کے سخن میں ایسی کچھ میٹھاس ہے |
| ہو گنہ گاروں کے ریوڑ میں جو ماہی روزِ حشر |
| کہیے گا یہ قدس کو یہ تو ہمارا خاص ہے |
معلومات